Monday 24 March 2014

آج ہم آپ کو ایک ایسے گمشدہ طیارے کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے مسافروں کو دنیا نے مردہ قرار دے دیا تھا لیکن یہ مسافر تھے اور زندہ رہنے کے لئے اپنے مردہ دوستوں اور ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوئے

آج ہم آپ کو ایک ایسے گمشدہ طیارے کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے مسافروں کو دنیا نے مردہ قرار دے دیا تھا لیکن یہ مسافر تھے اور زندہ رہنے کے لئے اپنے مردہ دوستوں اور ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوئے۔ جی ہاں یہ سچا واقعہ 1972ء میں پیش آیا تھا۔ جنوبی امریکہ کا ایک ملک یوراگوئے کے کالج کے لڑکے رگبی کا میج کھیلنے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ ہمسایہ ملک چلی جارہے تھے۔ 13 اکتوبر 1972ءکی شام کو جہاز نے ارجنٹائن کے ایک مقامی ایئرپورٹ سے پرواز شروع کی، جہاز کی منزل چلی کا دارالحکومت سینڈی ایگو تھی اور اس میں 45 مسافر سوار تھے۔ جہاز کو ایک پہاڑی سلسلے ”اینڈیز“ کے اوپر سے گزرنا تھا یہ پہاڑی سلسلہ 23ہزار فٹ تک بلند ہے لیکن موسم کی خرابی اور پائلٹ کی غلطی کے باعث جہاز ایک چٹان سے ٹکرانے کے بعد انتہائی برفانی چوٹی پر کریش کرگیا۔ شدید برفانی طوفان کے باعث پائلٹ کو چوٹی نظر نہ آئی تھی اور یہ حادثہ پیش آیا۔ خوش قسمتی سے پہاڑوں پر 15فٹ سے زیادہ برف ہونے کے باعث جہاز کے پرخچے نہ اڑے اور جہاز پھسلتا ہوا چوٹی سے ٹکرانے کے بعد نیچے کی جانب آیا،جہاز میں بیٹھے زیادہ تر مسافر محفوظ رہے۔ کنٹرول ٹاور سے جہاز کا رابطہ منقطع ہوچکا تھا اور یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جہاز کو حادثہ پیش آچکا ہے لیکن جہاز کی جائے حادثہ کا کسی کو معلوم نہ تھا۔ جہاز کی تلاش شروع کی گئی اور آٹھ دس دن تک ریسکیو ٹیمیں جہاز کی تلاش کرتی رہیں لیکن شدید برفانی طوفان کے باعث یہ سمجھ لیا گیا کہ جہاز میں بیٹھے تمام مسافر مرچکے ہیں اور بالآخر جہاز کو گمشدہ کہہ کر تمام مسافروں کو مردہ قرار دے دیا گیا۔ دوسری جانب جہاز پر سوار مسافروں کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ حادثے کے باعث 45 میں سے 16 افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ ہلاک شدہ افراد کو جہاز میں سے نکال کر باہر برف میں دفن کردیا گیا۔ 29 مسافر زندہ بچے تھے لیکن 5 کی حالت نازک تھی۔ بچ جانے والے مسافروں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ خوراک کا درپیش تھا، اس کے علاوہ جہاز کے باہر 15 سے 20 فٹ گہری برف تھی سب سے بڑھ کر 15 ہزار فٹ کی بلندی پر شدید برفانی طوفانتھا۔ جہاز میں صرف 10 سے 12چاکلیٹس موجود تھیں اور کھانے والے 29 لوگ یہ 12 چاکلیٹس 8 دن تک کھائیں گئیں۔ ٹرانزسٹر کے ذریعے باقی مسافروں کو نویں دن علم ہوا کہ انہیں مردہ قرار دے دیا گیا ہے اور ریسکیو ٹیموں نے ان کی تلاش بند کردی ہے۔ بھوک کی وجہ سے ان مسافروں کا برا حال تھا اور جب یہ علم ہوا کہ اب ان کی امداد کو کوئی نہ آئے گا تو تمام مسافر شدید پریشانی کا شکار ہوگئے۔ مزید 3 دن تک مسافروں نے انتظار کیا لیکن اب بھوک کے باعث ان کا برا حال تھا۔ آخر کار ان مسافروں نے فیصلہ کیا کہ جو لوگ مرچکے ہیں ان کا گوشت کھا لیا جائے۔ ان مسافروں نے ایک دوسرے سے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر ان میں سے کوئی مرجائے گا تو باقی لوگ اس کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ یہ مفلوک الحال مسافر شدید بے چارگی کے عالم میں 72 دن یعنی اڑھائی ماہ تک اس ”برفانی جہنم“ میں رہے۔ شدید برفانی طوفان، بھوک، کمزوری اور بیماریوں کے باعث 29 لوگوں میں سے صرف 16 لوگ زندہ بچے جبکہ 13لوگ حادثے کے بعد ہلاک ہوئے۔ ان 16 لوگوں میں سے 2 بہادر نوجوانوں نے 20 ہزار فٹ سے زائد اونچا پہاڑ عام جوتوں اور کپڑوں میں عبور کیا اور نزدیک ترین قصبہ جو کہ 60کلومیٹر دور تھا میں جاکر مدد حاصل کی اور یوں ان لوگوں کو 24 دسمبر 1972ء کو نئی زندگی ملی۔ یہ 16 لوگ آج بھی دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں۔ دنیا بھر میں اس واقع کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بقاء کی کہانی کہا جاتا ہے۔

Saturday 15 March 2014

میرے ابو



ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کے لیے بہت کچھ لکھا جاتا ہے ، واقعی ماں کی عظمت بہت زیادہ ہے لیکن ایک ہستی اور بھی ہے جو ماں کی طرح ہی محترم ہے اور ماں کی طرح ہی پیار کرنے اور خیال رکھنے والی ہے ، لیکن اس ہستی کے بارے میں بہت کم لکھا جاتا ہے
تو میری یہ پوسٹ اس ہستی کے نام
جب میں چھ سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو سب کچھ جانتے ہیں
جب میں دس سال کا تھا
میرے ابوبہت اچھے ہیں لیکن بس ذرا غصے کے تیز ہیں
جب میں بارہ سال کا تھا
میرے ابو تب بہت اچھے تھے جب میں چھوٹا تھا
جب میں چودہ سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو بہت حساس ہوگئے ہیں
جب میں سولہ سال کا تھا
میرے ابوجدید دور کے تقاظوں سے آشنا نہیں ہیں
جب میں اٹھارہ سال کا تھا
میرے ابو میں برداشت کی کمی بڑھتی جارہی ہے
جب میں بیس سال کا تھا
میرے ابو کے ساتھ تو وقت گزارنا بہت ہی مشکل کام ہے، پتہ نہیں امی بیچاری کیسےان کے ساتھ اتنی مدت سے گزارہ کررہی ہیں
جب میں پچیس سال کا تھا
لگتا ہے میرے ابو کو ہر اس چیز پر اعتراض ہے جو میں کرتا ہوں
جب میں تیس سال کا تھا
میرے ابو کے ساتھ باہمی رضامندی بہت ہی مشکل کام ہے۔شاید دادا جان کو بھی ابو سے یہی شکایت ہوتی ہوگی جو مجھے ہے۔
جب میں چالیس سال کا تھا
ابو نے میری پرورش بہت ہی اچھے اصولوں کے ذریعے کی، مجھے بھی اپنے بچوں کی پرورش ایسی ہی کرنی چاہیے۔
جب میں پینتالیس سال کا تھا
مجھے حیرت ہے کہ ابو نے ہم سب کو کیسے اتنے اچھے طریقے سے پالا پوسا۔
جب میں پچاس سال کا تھا
میرے لیے تو بچوں کی تربیت بہت ہی مشکل کام ہے، پتہ نہیں ابو ہماری تعلیم و تربیت اور پرورش میں کتنی اذیت سے گزرے ہوں گے۔
جب میں پچپن سال کا تھا
میرے ابو بہت دانا اور دور اندیش تھے اور انہوں نے ہماری پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے بہت ہی زبردست منصوبہ بندی کی تھی۔
جب میں ساٹھ سال کا ہوا
میرے ابو سب سے اچھے ہیں
غور کیجیے کہ اس دائرے کو مکمل ہونے میں چھپن سال لگے اور بات آخر میں پھر پہلے والے قدم پرآگئی کہ میرے ابو سب سے اچھے ہیں۔
اور کیوں نہ اچھے ہوں انہوں نے ہماری زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ، ہمارے چین سکون آرام کے لیے بہت زیادہ محنت کی ، اور ہمیشہ ایک گھنی چھاؤ ں جیسے درخت کی ماند ہمارے سر پر اپنی شفقت کا سایہ رکھا ،
———————————————————————
آئیے ہم اپنے والدین سے بہترین سلوک کریں، ان کے سامنے اف تک نہ کریں، ان کی خوب خدمت کریں اور ان سے بہت سا پیار کریں قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے [اللہ ہم سب کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک جو بقید حیات ہیں کو اچھی صحت اور لمبی عمر دے اور ان کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے، آمین]۔ اور یہ دعا کریں کہ اے اللہ میرے والدین پراس طرح رحم فرما جیسے انہوں نے مجھ پراس وقت مہربانی کی جب میں کمسن تھا

حصے کی نیکی ضرور کمائیے



نمرود بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ایک بڑے میدان میں آگ بھڑکائی جا رہی تھی
دور دور سے جنگل کاٹ کر لکڑیاں لاکر اس آگ میں ڈالی جا رہی تھیں کئی ہفتوں کی محنت سے آگ بھڑک اٹھی اس کے شعلے آسمان تک پہنچ رہے تھے۔ اس کا دھواں چاروں طرف پھیل کر لوگوں کو ہیبت زدہ کررہا تھا ۔
اس بھڑکتی ہوئی آگ سے دور ایک پر بہار چمن میں ایک چھوٹی سی فاختہ کا نشیمن تھا۔ جس میں وہ سکون سے
زندگی گزار رہی تھی اس کے قریب ہی ایک الو کا گھونسلہ تھا جو رات کو گشت کرکے دنیا جہان کی خبریں جمع کیا کرتا تھا۔
جب بھڑکتی ہوئی آگ کا دھواں فاختہ کے نشیمن تک پہنچا تو اس نے گھبرا کر الو سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟
الو نے کہا تم کو معلوم نہیں ہمارے بادشاہ نے ابراہیم کو زندہ جلانے کے لئے آگ دہکائی ہے۔ فاختہ کا کلیجہ دھک سے رہ گیا
اس نے گھبرا کر پوچھا کون ابراہیم وہی خلیل اللہ ۔ الو نے اپنی آنکھیں چمکا کر کہا ہاں وہی ابراہیم ۔
یہ خبر سن کر فاختہ بے اختیار رونے لگی اس نے چیخ کر کہا نہیں نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا! اللہ کے دوست کو کوئی نہیں جلا سکتا۔
الو نے ہنس کر کہا تم کون چیز ہو روکنے والی، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
فاختہ نے روتے ہوئے کہا نہیں نہیں !میں ایسا نہیں ہونے دونگی۔ وہ پھڑپھڑاتی ہوئی اپنے نشیمن میں لوٹ آئی
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔
اس نے اپنے بچوں پر الوداعی نظر ڈالی اور نشیمن سے نکل گئی ۔ اس نے گڑگڑاکر دعا کی ’’اے میرے رب! ابراہیم کو بچالے‘‘۔
وہ قریب کے چشمے پر گئی اور اپنی چونچ میں پانی بھر کر تیزی سے پھیلی ہوئی آگ کی طرف اڑنے لگی آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے لیکن فاختہ کی زبان پر ایک ہی دعا تھی میرے رب! ابراہیم کو بچالے اور اس کی چونچ میں پانی کے چند قطرے تھے۔ جن سے وہ بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھانا چاہتی تھی جب وہ شعلوں کے قریب پہنچی اور آگ سے اس کے پر جلنے لگے تو اس نے وہ چونچ بھر پانی آگ پر ڈال دیا اور پھر تیزی سے دوبارہ چونچ بھرنے کیلئے چشمہ کی طرف پلٹی فاختہ نے کئی پھیرے لگائے ۔ وہ تھک کر چور ہوگئی ۔ آگ کی گرمی سے اس کے بازو شل ہوگئے، بالآخر وہ اپنے نشیمن کے قریب بے دم ہو کر زمین پر گر پڑی۔
الو جو یہ سب تماشہ دیکھ رہا تھا اس نے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا ’’بے وقوف چڑیا یہ چونچ بھر پانی سے آگ کا دریا بجھانے چلی تھی‘‘۔ فاختہ نے چمک کر کہا تم کیا جانو میں نے اپنا انعام پا لیا۔ جب میرا مولا مجھ سے پوچھے گا کہ اے فاختہ ہم نے تم کو تمام نعمتیں دیں تھیں لیکن جب ہمارا خلیل آگ میں ڈالا جارہا تھا تب تم نے کیا کیا؟
تب میں عرض کروں گی میرے مولا !میں نے اپنی بساط بھر کوشش آگ بجھانے میں لگادی، فاختہ نے یہ کہتے کہتے دم توڑ دیا اور الو سوچنے لگا یہ چھوٹی سی چڑیا جیت گئی ۔ افسوس میں طاقتور ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکا۔
دنیا کے ہر دور میں نمرود اور ابراہیم علیہ السلام کی کشمکش جاری ہے ۔
آج بھی آگ ہے اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
چاروں طرف پھیلی ہوئی آگ کو بجھانے کی کیا ہم کوئی کوشش کررہے ہیں یا صرف تماش بین بنے بیٹھے ہیں ؟؟
یہ فیصلہ ہم کو کرنا ہے کہ ہم فاختہ کے خانے میں ہیں یا دوسرے خانے میں۔
اگرکہیں یتیم خانے کا چندہ ہو رہا ہو تو کوشش کیجئے کہ آپ کی طرف سے کوئی لقمہ ان کے پیٹ میں اترجائے
اگر کوئی مسجد تعمیر ہو رہی ہو تو آپ کے نام کی بھی ایک اینٹ اس میں لگ جائے اور
قیامت کے دن آپ کے حق میں سفارش بن جائے۔

ملاّ کا احسان عظیم



سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رومیش علی، صفدر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور پر بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔
ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔
برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّاا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟
دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔
یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیرکے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا

یہ دلچسپ واقعہ اٹلی کی مشہور ہیروئن مارشیلا انجلو کا ہے



یہ دلچسپ واقعہ اٹلی کی مشہور ہیروئن مارشیلا انجلو کا ہے، جواب الحمدلله فاطمہ عبدالله ہو چکی ہیں ، ہم یہ واقعہ انہی کی زبانی بیان کر رہے ہیں، فاطمہ عبدالله بتاتی ہیں:
میں ایک متعصب عیسائی خاندان میں پیدا ہوئی ، میرا تعلق اٹلی سے ہے ، میرا بچپن جنیوا میں گزرا، بعد میں ہم لوگ روم منتقل ہو گئے ۔ یہاں میں نے آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لے لیا، میں اپنی خوب صورتی کی وجہ سے ہمیشہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی تھی ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہی میں نے ماڈلنگ بھی کرنی شروع کر دی تھی ۔ روم کے سبھی فیشن شوز میں مجھے بلایا جاتا تھا۔ ان شوز میں شرکت سے میری شہرت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہا اور مجھے فلموں میں بھی کام ملنے لگا، میرے لیے شہرت اور دولت کے دروازے کھل گئے۔ آرٹس اکیڈمی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میری خواہش اطالوی سینما پر چھانا تھا۔ اٹلی کے مشہور پروڈیوسر بیٹروجرائس نے مجھے اپنی فلم کے لیے ہیروئن منتخب کر لیا۔ اس فلم کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور پھر میں کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر تی گئی۔
دوسری عالمی جنگ پر بننے والی فلم کی شوٹنگ کے لیے مجھے اپنی یونٹ کے ساتھ مصر کے ایک معروف شہر مرسی مطروح جانا ہوا وہ سفر میرے لیے روشنی کا سفرثابت ہوا اورمیری زندگی کا رخ ہی پلٹ گیا۔ اس شہر سے گزرتے ہوئے ہمیں ایک مقام پر تھوڑی دیر کے لیے رکنا پڑا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں پر موجود ایک عمارت سے متصل حصے میں کچھ لوگ ہاتھ منھ دھونے کے بعد جوتے اتار کر عمارت میں داخل ہو رہے ہیں او روہ قطاروں میں کھڑے ہو کر اٹھنے بیٹھنے کا سا عمل کر رہے ہیں، اس منظر کو دیکھ کر مجھے تجسس ہوا اور میں وہ منظر قریب سے دیکھنے کا رسے اتر کر اس عمارت کے قریب چلی گئی ۔ وہاں پہنچی تو دیکھا کہ اب وہ سب لوگ بیٹھے پر سکون انداز میں کچھ پڑھ رہے ہیں ، اُن میں سے کسی نے بھی میری طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ اس مشاہدے کے پر سکون لمحات مجھے اپنی پوری زندگی میں کبھی میسر نہیں آئے تھے۔ وہاں لوگوں سے میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ عمارت مسجد ہے ، اندر موجود لوگ مسلمان ہیں او رعبادت کر رہے ہیں ۔ میں نے زندگی میں پہلی بار مسجد دیکھی تھی، سچ کہوں تو مسلمان نام کی جماعت کو ہی پہلی بار دیکھا تھا۔ پتہ نہیں کیوں دوسرے دن میں کھچی کھچی پھر انہی وقتوں میں مسجد کی طرف چلی گئی ، میں دوبارہ مسلمانوں کی اس جماعت کو عبادت کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی ۔ انہیں منظم طریقے سے عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے اس وقت قلبی سکون کا احساس ہوا تھا او رعبادت کے لیے ان لوگوں کی پاکبازی وبرابری پر مجھے رشک آیا تھا۔ نماز ختم ہونے کے بعد جب لوگ مسجد سے باہر آئے تو میں نے ایک دو لوگوں سے اُن کی عبادت سے متعلق بات چیت کی ۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے وہ میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ وہ بہت ہی نیک طبیعت اور سادہ مزاج لوگ تھے ۔ وہ مجھے بہن او ربیٹی کہہ کر بات کر رہے تھے جب کہ میں نے اپنی اس وقت کی عمر تک اپنی قوم کے لوگوں کو اپنے اوپر بدنظر پایا تھا، یہاں تک کہ اپنے لیے بیٹی اور بہن جیسے خلوص بھرے الفاظ میں نے کسی سے نہیں سنے تھے۔
مصر میں شوٹنگ کے ختم ہونے کے بعد میں فلمی یونٹ کے ساتھ اٹلی لوٹ آئی ۔ اٹلی میں میرا ایک دوست شوہر کی طرح میرے ساتھ رہتا تھا۔ گھر واپس آنے کے بعد میں نے اس رشتے کی حرمت پر بہت غور کیا، کافی غوروفکر کے بعد اب اس رشتے میں مجھے خرابی کا احساس ہونے لگا۔ اُس مسجد میں لوگوں کی عبادت، میرے سوال پر نیچی نظریں رکھ کر ان کا مجھ سے بات کرنا اور بیٹی بہن کہہ کر مخاطب ہونا، اس سب نے مجھے اُن مسلمانوں سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میرے قلب پر ان کی عبادت واخلاق کا بہت اچھا اثر پڑا۔ مجھے اپنے منھ بولے شوہر کے رشتے سے گھن آنے لگی اور میں نے اس سے عملاً علیحدگی اختیار کر لی۔ میں فلموں کے مزید معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریز کرنے لگی ۔ میں اپنے گھر کے خاموش حصے میں بیٹھ کر ان مسلمانوں کی عبادت سے متعلق گھنٹوں سوچتی رہتی، میرے ذہن میں مصر کی وہ چھوٹی سے مسجد، اُن سادہ سے مسلمانوں کے اخلاق، ان کی عبادت کی سادگی، نماز میں چھوٹے بڑے کی برابری ، ان لوگوں کا مجھے نظر اٹھا کر نہ دیکھنا، میرے لیے بہن اور بیٹی جیسے پاک الفاظ کہنا یہ ساری باتیں میرے قلب وذہن پر کچھ اس طرح نقش ہو گئی تھیں کہ میں تصور ہی تصور میں بار بار مصر کی اسی مسجد میں پہنچ جاتی۔
ایک روز میں ایک راستے سے گزر رہی تھی کہ میری نظر ایک بورڈ پر پڑی ،جس پر لکھا ہوا تھا ” مرکز اسلام ،روم“ میں اس عمارت میں داخل ہو گئی ، وہاں موجود لوگ میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آئے ۔ میں نے ان سے دینِ اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ کتابیں طلب کیں، انہوں نے ایک پیکٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا، جس پر لکھا ہوا تھا”بھائیوں کی جانب سے اپنی محترم بہن کی خدمت میں ایک ہدیہ“ میں نے گھر پہنچ کر جب یہ پیکٹ کھولا تو اس میں سے اطالوی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ او رکچھ کتابچے برآمد ہوئے۔ کتابچوں میں خاص طور پر اسلام میں عورتوں کے حقوق اور نبی رحمت صلی الله علیہ و سلم کے ازواج مطہرات کے بارے میں نظریات، تفکرات اور اعمال پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی ۔ میں ان کتابچوں کا گھنٹوں مطالعہ کرتی رہی اور یہ مطالعہ ہر بار نور اور ہدایت کا ایک نیا باب روشن کرتا رہا ۔ کتابوں کے مطالعہ کے بعد میں نے سوچا جو چیز دل میں بھی آگئی ہے تو اسے قبول کرنے میں دیر کیسی؟ یہ سوچ کر میں اسلامی مرکز پہنچی اور انتظامیہ سے اسلام قبول کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ میرا خیال تھا کہ اسلام قبول کرنے کی کارروائی میں کچھ وقت لگے گا مگر اسلامی مرکز والوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے میں کسی خاص کارروائی کی ضرورت نہیں ، ان کا کہنا تھا کہ جوباتیں اور عقائد دل سے آپ نے مان لی ہیں، یہی زبان سے دہرالو، میں نے ایسا ہی کیا ، انہوں نے مجھے کلمہ شہادت اور اس کا ترجمہ زبان سے کہلوایا۔ الحمدلله! اب میں مسلمان ہوں۔ مجھے اپنے اند ربھی اسی سکون کا احساس ہے، جو میں نے مصر میں عبادت کرتے ہوئے لوگوں کے چہروں پر دیکھا تھا، الحمدلله! اب میں بھی اسلامی مرکز کی اہم ممبر ہوں۔
میرا وہ دوست جس کے ساتھ میں کافی وقت گزار ا اور میں اس کو پسند بھی کرتی تھی میں نے سوچا اسے بھی دین اسلام کی دعوت دوں اور اسلام کی خوبیاں اس کے سامنے بھی پیش کروں۔ میں اس سے ملنے اسی فلیٹ پر پہنچی جہاں میں نے اندھیرے کی دنیا کے برسوں گزارے تھے۔ میں نے اسے اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتایااور اسلام کے بارے میں اسے موٹی موٹی باتیں بتائیں۔ اس نے مجھے ٹالنے کے لیے کہا یہ مذہب بڑھاپے کے لیے بڑا مناسب معلوم ہوتا ہے، اس لیے 30 سال بعد اس کے بارے میں سوچیں گے، لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور جب بھی میں اس سے ملتی اسلام کی اچھائیاں اسے بتاتی اور بڑی مشکل سے میں نے اسے اسلامی مرکز چلنے کے لیے راضی کیا، مرکز والوں کی تبلیغ اسلام سے وہ بہت متاثر ہوا، اس نے کہا کہ یہاں آکر مجھے پتہ چلا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پوری انسانیت کی فلاح کی بات کرتے تھے، جب کہ اب تک میں یہی سمجھتا تھا کہ اسلام قتل وغارت گری کی ترغیب دینے والا مذہب ہے او راگر میں نے اسلام قبول کیا تو مسلمانوں کی طرف سے چند عیسائیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا، یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔
کچھ دن بعد میرے دوست نے بھی اسلام قبول کر لیا، مرکز کے لوگوں نے اس کا نام عبدالله رکھا، وہ میرے ساتھ پابندی سے دینی تعلیم کے لیے مرکز چلنے لگا۔ مرکز کے ایک سا تھی نے ہم سے کہا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو ، شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ ہم دونوں بخوشی اس کے لیے راضی ہو گئے او رمرکز کے ہی ایک بزرگ نے ہمارا نکاح پڑھایا اور اس طرح میں مارشیلا انجلو سے فاطمہ عبدالله ہو گئی۔
اب ہم دونوں اسلامی مرکز کے مبصر ہیں اور معاشرے میں دین اسلام کے بارے میں پھیلی غلط فہمیاں دور کرنے اور دین اسلام کی تبلیغ کا کام کر رہے ہیں

نصیحت نے دہلی کی درجنوں طوائفوں کی زندگی بدل دی۔سچا واقعہ




د ھلی کی شا رع عا م مر د و ں عو رتو ں ، بچو ں بو ڑ ھو ں، آ جر و ں ا ور مز د ورو ں کی ر یل پیل ،بیل گا ڑ یو ں ا و ر تا نگو ں کی آ مد و ر فت سے ا س د ر یا کا منظر پیش کر ر ھی تھی جس میں ند یو ں ا و ر نہر و ں، چشمو ں ا ور آ بشا ر و ں کا پا نی ر و اں د واں ہو اور اس میں ر نگ بر نگی مچھلیا ں تیر رھی ھو ں- لو گ کنا رو ں پر کھٹر ے ھو کر ا س پر فر یب اور دلکش منظر سے لطف اند و ز ھو رھے ہو ں اور اپنی اپنی پسند کی مچھلیا ں پکڑ نے کے لیے کنڈ یا ں اور جال لگا ے بیٹھے ھوں۔ ا س پر ر و نق با زا ر ا ور و سیع شا ر ع عام کے د و نو ں طر ف کھلی ھو ئ دو کا نو ں سے حا کم اور محکو م، آ جر اور مز دور بچے اور بو ڑ ھے ا شیاء صرف، کپڑ ے،کتا بیں اور کا پیا ں غلے اور فروٹ خر ید رھے تھے کے دفعتا با زار میں سکو ت طا ری ھو گیا خر یدا رو ں اور دوکانداروں کی نگا ھیں بگھیو ں اور رتھو ں میں جلو ہ افر و زحسینا وں پر ٹک گیں- یہ حسینا ئیں جو بن سنور کر اپنے اپنے با لا خا نوں میں عیا ش ا میر زادوں داد عیش دے کر ان کی دولت دونیا پر ڈاکہ ڈالتی تھیں-آ ج وہ نہا دھو کر بھڑ کیلے ملبو سا ت زیب تن کر کے گلستا ن کے ان رنگا رنگ پھو لو ں کی طر ح نکھر ی ھو ئ دکھائ دیتی تھیں جنھیں شبنم کے قطروں نے دھو ڈالا ھو- جب لوگوں کی نگا ھیں ان کی زرق برق پو شا کو ں،عنبر یں بالو ں،سرمگیں آنکھو ں،گورے چٹے رخساروں،گلا بی ھونٹوں اور صاف شفاف دانتو ں پر پڑ یں تو وہ خریدوفروخت بھول گیے اور ان کی طرف دیکھتے رہ گیے لیکن آج ان حسیناوں کو بازار کے لوگوں سے کچھ ر غبت نہ تھی-وہ اپنی نا یکہ کے جشن پر اکٹھی ھو کر جا ری تھیں-آج رات انہوںنے پازیبیں پہن کر تھرک تھرک کر اپنے فن کا مظاھرہ کرنا تھا- چنانچہ یہ مسلم اور غیر مسلم نوجوانوں کو اپنی اداؤں سے گھایل کرتی ھوئ مدرسہ عز یزیہ کے دروازے سے گزر رھی تھیں کہ حضرت شاہ محمد اسما عیل (ر ح)کی نظر ان پر پڑ گئ- انھوں نے جب انھیں بے پردہ دیکھا تو سا تھیوں سے پوچھا یہ بے پردہ کون ھیں؟ سا تھیوں نے بتایا کہ حضرت یہ طوا ئفیں ہیں اورکسی ناچ رنگ کی محفل میں جا رہی ہیں- حضرت شاہ صاحب نے فرمایا”چلو یہ تو معلوم ھو گیا کہ طوا ئفیں ہیں لیکن یہ بتاؤ کہ یہ کس مذھب سے تعلق رکھتی ھیں؟ ساتھیوں نے جوا ب دیاجناب ھم کیا بتائیں کہ ان کا مذھب کیا ھے اگر یہ کسی مذھب سے تعلق رکھتی ھو تیں تو یوں بن سنور کر اور بے پردہ ھو کر باھر نہ نکلتیں- شا ہ صا حب نے فرمایا یہ تو نہیں ھو سکتا کہ ان کا کوئ مذھب نہ ھو بلکہ یہ کسی نہ کسی مذھب کی طرف منسو ب تو ضرور ھوںگی خواہ نام کے اعتبار سے ہی سہی-تو ا نہو ں نے بتا یا کہ جناب یہ مذھب اسلام ہی کو بدنام کرنے والی ہیں اور بد قسمتی یہ ھے کہ یہ آ پنے آپ کو مسلما ن کہتی ہیں- شاہ صا حب نے جب یہ بات سنی تو فرمایا: مان لیا کہ بد عمل اور بد کردا ر ہی سہی لیکن کلمہ گو ہونے کے اعتبار سے ہو ئ تو ھم مسلما نو ں کی بہنیں ہی-لہذا ہمیں انھیں نصیحت کرنی چا ہیے ممکن ہے کہ گناہ سے باز آ جا ئیں،ساتھیو ں نے کہا ان پر نصیحت کیا خاک ا ثر کرے گی؟بلکہ ان کو نصیحت کر نے والا تو الٹا خود بدنا م ھو جاے گا- شاہ صا حب”تو پھر کیا میں تو یہ فریضہ ادا کر کے رھوں گا خواہ کچھ بھی ہو جاے- ساتھیوں نے عر ض کی حضرت آپ کا ان کے پاس جانا قرین مصلحت نھی ھے آپ کو پتہ ھے کہ شہر کے چاروں طرف آپ کے مذ ہبی مخالفین ھیں جو آپ کو بد نام کرنے کا کوئ موقعہ نہیں چھو ڑتے آپ نے فرما یا مجھے ذرہ بھر پر واہ نھی،میں انھیں ضرور نصیحت کرنے جاوں گا- آپ تبلیغ حق وا صلا ح کا عزم صادق لے کر گھر میں تشریف لاے-درویشانہ لباس زیب تن کیا اور تن تنھا نایکہ کی حویلی کے دروازے پر پہنچ گے اور صدا لگائ اللہ والیو دروازہ کھولو اور فقیر بابا کی صدا سنو- آپ کی آواز سن کر چند چھوکریاں آئیں-انھوں نے دروازہ کھولا تو دیکھا باھر درویش صورت بزرگ کھٹرا ھے-انھوں نے سمجھا کہ یہ کوئ گدا گر فقیر ھے جو تما شا کر کے خیرات لینا چاھتا ھے- چھو کریوں نے چند روپے لاکر اسے دیے-لیکن اس نے اندر جانے کا ا صرار کیا اور پھر اندر چلے گیے-کیا دیکھا چاروں طرف شمعیں اور قند یلین روشن ھیں۔شہر بھر کی طوا ئفیں،طبلے اور ڈوھولک کی تھاپ پر تھرک رہی ھیں۔ان کی پازیبوں اور گھنگھروں کی جھنکا ر نے عجیب سماں باندھ رکھا ھے ان پر اس قدر محو یت طاری تھی کہ انھوں نے فقیر بے نوا،مرد قلندر کی پروا نہ کی اور اپنے شغل میں مصروف رہیں-جو نہی ان کی نائیکہ کی نگاہ اس فقیر بے نوا پر پٹری اس پر ہیبت طاری ھو گئ-وہ جا نتی تھی کہ اس کے سامنے فقیرانہ لباس میں گداگر نھی بلکہ شا ہ اسما عیل کھٹرا ھے جو حضرت شا ہ ولی اللہ کا پوتا اور شا ہ عبد ا لعز یز ،شا ہ رفیع الدین اور شا ہ عبدالقادر کا بھتیجا ھے-یہ جرات مند اور غیور انسان اور کجکلا ھوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا جسور ھے یہ اتنا نڈر اور بے باک شخص ھے کہ تلوار حما ئل کر کے تن تنھا متعصب رافضیو ں کے جلسہ عام میں خلفا ے ثلا ثہ کی شان بیان کر چکا ھے-شاہ دہلئ اکبر شاہ ثانی کے دربار میں بدعات پر ظرب کاری لگا چکا ھے۔اس کی کھال میں خدا کے سوا کسی کا خوف نھی اور نیکو کار بھی اتنا کہ سفر و حضر میں نماز تہجد قضا نھی ھونے دیتا،بے لوث اتنا کہ دین مصطفٰی کی سر بلندی کی خاطر اپنے سے چھوٹے شخص کے ھا تھ پر بیعت کر کے تحریک جھاد کی قیادت کرنے کا خواھاں ھے ۔ ان کی شخصیت اس قدر پُر رعب تھی کی نا ئیکہ نے لباس کی تبد یلی کے باو جود انھیں پہچا ن لیا۔اپنی نشست سے اٹھی اور احترام کے ساتھ ان کے سامنے جا کھٹری ھو ئ بڑے ادب سے عرض کی حضرت آپ نے ہم سیاہ کاروں کے پاس آنے کی زحمت کیوں کی آپ نے پیغام بھیج دیا ھوتا تو ھم آپ کی خدمت میں حا ضر ھو جاتیں- آپ نے فرمایا: ”بڑی بی تم نے ساری زندگی لوگوں کو راگ و سرور سنایاھے۔آج زرا کچھ دیر ھم فقیروں کی صدا بھی سن لو”- جی سنایئے ھم مکمل توجہ کے ساتھ آپ کا بیان سنیں گی- یہ کھہ کر اس نے تمام طوائفوں کو پا زیبیں اتارنے اور طبلے ڈھولکیاں بند کر کے وعظ سننے کا حکم دے دیا-وہ ہمہ تن گوش ھو کر بیٹھ گئیں- شاہ اسما عیل (رحمہ اللہ) نے حمائل شریف نکال کر سورة التين تلاوت فر مائ آپ کی تلاوت اس قدر آفریں اور پر سوز تھی کہ طوائفوں کے ہو ش ٹھکانے آگئے اور وہ بے خود ھو گئیں-اس کے بعدآپ نے آیات مبارکہ کا دلنشین رواںدواں ترجمہ کرکے خطاب شروع کر دیا- ان کا یہ خطاب زبان کا کانوں سے خطاب نہ تھا بلکہ یہ دل کادلوں سے اور روح کا روحوں سے خطاب تھا یہ خطاب دراصل اس الہام ربانی کا کرشمہ تھا جو شا ہ صا حب جیسے مخلص دردمندوں اور امت مسلمہ کے حقیقی خیر خواھوں کے دلوں پر اترتا ھے-قلم و قرطاس میں یہ سکت نھی کہ روحانی خطاب کو الفاظ کا جامہ پہنا سکیں-البتہ عالم تصور اس کی اتنی نشان دہی کر سکتا ھے کہ آپ نے قرآن پاک کی آیات مبارکہ سے کا ئنا ت پر انسان کی برتری اور بزرگی اس انداز سے بیان کی کہ انسانی مخلوق اپنے آپ کو ملائکہ مقربین سے افضل خیال کرنے لگی-قرآن کریم میں انسان کی بزرگی اور افضلیت یوں بیان کی گئ ھے-
سورة الإسراء70 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزو ں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی کہ باقی مخلوق ھاتھوں اور پاوں پر جھک کر چلتی ھے منہ سے چرتی چگتی کھاتی پیتی اور عقلوخرد سے عاری ھے جبکہ انسان اپنے پاؤں پر سیدھا چلتا ھاتھ سے کھاتا پیتا خشکی میں زمینی سواریوں پر سفر کر تا ھے دریاؤں اور سمندروں میں کشتیوں پر بیٹھ کر سمندر سے تازہ اور لزیذ گوشت حاصل کرتاھے اس سے گراں قدر موتی اور ھیرے نکالتا ھے اور ملائکہ کرام باوجود (ِعبَادّمُکُرَمُون)ھونے کےٹھنڈےاور شیریں مشروبات،لزیذ ماکولات،نرموگرم ملبوسات پھلوں کی لزتون اورپھولون کی رنگتوں سے محروم ھیں یہ انسان ھی ھے جسے اللہ نے احسن تقویم کا شا ہکار بنایا اور اسے ایسی شکل و صورت عطاکی ھے کہ چاند سورج سے اسےتشبیہ دینا ایسے ھی ھے جیسے سورج کو چراغ دکھانا-اللہ کریم نے اسے اپنے ہاتھ سے تخلیق کر کے مسجود ملائکہ بنایا- اسے دنیا اور آخرت کی نعمتوں کا وارث بنایا- فرشتوں نے عرض کی تھی اے اللہ عبادت ہم بھی کرتے ھیں اور انسانوں سے زیادہ کرتے ھیں مگر وہ ھر طرح کی لزتوں سے دنیا میں لطف اندوز ھیں جبکہ ھم بیویوں کی چاھت،بچوں کی محبت پھلوں کی مٹھاس اور پھلوں کی خوشبو سے محروم ھیں-اے اللہ! ھم تیری تقدیر پر راضی ھیں- البتہ ھمیں آخرت میں ان نعمتوں سے بہرور فم دینا-لیکن اللہ نے فرمایا یہ کیسے ھو سکتا کہ میں اس مخلوق کو جسے کُن کہہ کر پیدا فرمایا ھے اُس مخلوق کے برابر کردوں جسے میں نے اپنے ہا تھ سے بنایا ھے-شیطان لعین نے اس کی بزرگی پر حسد کیا اسے زچ کرنے کی ٹھانی اور دو ٹوک انداذ میں چیلنج دیا:
سورة الأعراف 16،17 قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سےآؤں گا اور تو اکثر کو ان میں سے شکر گزار نہیں پائے گا اور اس ملعون نے چیلنج دیا تھا-
سورة النساء119 وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا
اور البتہ انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور البتہ ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم کروں گا کہ جانوروں کے کان چریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا کہ جانورں کے کان چیریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گاکہ الله کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں اور جو شخص الله کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے گا وہ صریح نقصان میں جا پڑا اور اس خبیث نے واقعی اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنا دیا-
سورة سبأ 20 وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
اور البتہ شیطان نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا سوائے ایمان داروں کے ایک گروہ کے سب اس کے تابع ہو گئے چنانچہ بنوآدم اپنے باپ کی راہ کو چھو ڑ کر اس کے دشمن کے تابعدار بن گے آستانوں اور درگاہوں میں مدفون ہستیوں کی نذرونیاز دینے کے لیے جانوروں کے کان چیرنے،مصنو عی حسن کے لیے پیشا نیوں کے بال اکھاڑنے اور سرجری کروانے لگے-انھیں خدا سے اسقدر غافل کر دیا کہ فحاشی اور بے حیائ کے جوہٹر میں اوند ھے منہ گرنے لگے اور اس کے جال میں پھنس کر اپنی بزرگی اور شرافت کھو بیٹھے-نتیجتًا عفت و عصمت کی وہ دیویاں جنھیں جائز نکاح کی بدولت ان کے شوہروں نے سچے موتیوں کی طرح حفاظت میں رکھنا تھا اور ان کی اولاد نے ان کے پاؤں دھو دھو کر پینے تھے وہ کنواری مائیں بننے لگیں-اپنے نومولودوںکو کھیتوں اورگٹروں میں پھینکنے لگیں اور جوانی کے چار دن عیش سے گزارنے کے بعد معاشرے کا قابل نفرت حصہ بننے لگیں ان کی جوانی کی بہار یں لوٹنے والے انھیں ٹھوکریں مارنے لگے اور وہ بڑھاپے میں اپنی کسمپری،بے توقیری اور عصمت واحترام کی بربادی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں-مگر ”اب پچھتاے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گیں کھیت” اگلا مرحلہ موت کا ھے شب د یجور جیسے سیاہ بال اب سفید ھو چکے موتیوں جیسے دانت ایک ایک کر کے جھڑچکے چہر ے پر جھریاں پڑ چکیں اور گوریوں کا چمڑا لٹکنے لگا-بلوریں آنکھوں سے بینائ ختم ھو چکی دوبارہ جوان ھونے کی امید نہ رھی کو ٹھیوں سے منتقل ھو کر قبر کی گھپ اندھیر کو ٹھڑ ی میں تن تنہا ھونے کا وقت قریب آ گیا-جوانی میں عفت مآب اور تہجد گزار ھو تیں تو یقیناً ان کی جائز اولاد بڑھاپے میں انھیں ہتھلییوں پر اٹھاتی لکین شیطان ملون نے انھیں کہیں کا نہ چھوڑا- نہ دنیا کا نہ آخرت کا-اب موت کے فر شتوں کی آمد آمد ھے حسن کی دیو یاں انھیں دیکھ کر کہتی ھیں:-
سورة المنافقون 10 رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ
اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت کے لیے ڈھیل کیوں نہ دی کہ میں خیرات کرتا اور نیک لوگو ں میں ہو جاتا” لیکن یہ روحیں پہلے کیا کرتی رہیں جواب مہلت مانگ رہی ھیں اور مہلت مل بھی جاے تو پھر اسے ایسے بھلا دیں گی جیسے اس سے قبل بیما ری کی حالت میں موت کا منہ دیکھ کر توبہ و استغفار کرتیں صحت آنے پر بھول جاتیں اور از سر نو حرام کھانا شروع کر دیتی تھیں- اس کا اب مہلت کا وقت ختم ھے قبر میں اترنے کی تیا ری کرو-
سورة ق 19 وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ
اور موت کی بے ہوشی تو ضرور آ کر رہے گی یہی ہے وہ جس سے تو گریز کرتا تھا
سورة الأنعام 93 وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ
اور اگر تو دیکھے جس وقت ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھانے والےہوں گے کہ اپنی جانوں کو نکالو آج تمہیں ذلت کا عذاب ملے گا اس سبب سے کہ تم الله پر جھوٹی باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں کے ماننے سے تکبر کرتے تھے ان فر شتوں کی ہولناک دہشت کی وجہ سے مجرموں کے روحیں ان کے جسموں کے کونوں میں چھپنے لگتی ھیں اور انھیں مار مار کر نکالتے اور اس طرح نکالتے جس طرح باریک دوپٹے کو کانٹے دار بیری کی شاخ سے کھینچا چاتا ھے اور اس کشمکش میں اس کی جان نرخرے میں اٹک جاتی ھے-
سورة القيامة 26،27 كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ
نہیں نہیں جب کہ جان گلے تک پہنچ جائے گی اورلوگ کہیں گے کوئی جھاڑنے والے کو بلاو-” بالآخر سب عزیزواقارب کی موجودگی میں اس کی روح کھینچ لی جاتی ھے اور اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ کر آسمانوں کی طرف لے جایا جاتا ھے اور جہاں سے گزاری جاتی ھے سب آسما نو ں والے اس کا اوراس کے باپ کا نام پوچھتے ھیں جب بتا یا جاتا ھے تو اسے برے لفظوں سے یاد کرتے ھیں اور یس کے لیے آسمانوں کے دروازے نھی کھلولے جاتے-
سورة الأعراف 40 إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ ”
بے شک جنہوں نے ہماری آیتو ں کو جھٹلایا اوران کے مقابلہ میں تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اورنہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھس جائے اور ہم گناہگاروں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں،، عزیزواقارب اس جوان یا بوڑھے مردوں عورتوں کے سوٹ قینچی سے کاٹ کر ان کے ہاتھ سے قمیتی گھڑ یاں جیب سے روپے کانوں سے سونے کی بالیاں اور گلے سے قمیتی ہار اتار کر اسے نہلاتے کفناتے اور دفناتے ھیں- یس کے بعد اس کی روح بدن میں لوٹا دی جاتی ھے منکر نکیر ہیبت ناک صورت اور بجلی کی طرح کڑکتی آواز میں ( مَن رَبُّکَ،مَا دِینُکَ وَ مَن نَبِیُّکَ))کے جواب پوچھنے آ دھمکتے ھیں- مجرموں کے جواب نہ دینے پر انھیں ایک گرز سے مارتے ھیں کہ ان کا بدن ریزہ ریزہ ھو کر پھر اصل صورت پر آجاتا ھے وہ انھیں کہتے ھیں کہ اگر تو نے قرآن پڑھا ھوتا یا سنا ھوتا تو تجھے پتہ چل جاتا کہ تمھارا رب کون،تمھارا دین کیا ھےاور تمھارا نبی کون تھا-چنانچہ مسلسل سزا دینے کے لیے دوزخ کی طرف اس کی قبر میں سوراخ کر کے اسے لٹا دیا جاتا ھے- پھر جب حشر روز اسرافیل علیہ السلام قرناء میں پھونک دیں گے تو زمین میں زلزلہ برپا ھو جاے گا-پہاڑ آپس میں ٹکرا دیے جائیں گے اور روئ کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے آسمان تلچھٹ کی طرح ھو جاے گا ستارے بے نور ھو جائیں گے اللہ فرماتے ھیں:
سورة الحاقة 13 تا 16 فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ
پھر جب صور میں پھونکا جائے گا ایک بار پھونکا جانا اور زمین اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے پس وہ دونوں ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے پس اس دن قیامت ہو گی اور آسمان پھٹ جائے گا اوروہ اس دن کمزور ہوگا” اس روز صور کی ہولناک آواز کی دہشت سے دودھ پلاتی مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو پٹخ کر بھاگ کھڑی ھوں گی-حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گےاور دودھ دوہنے والےگوالے برتن پھینک دیں گے کپڑا لپیٹنے والے تھان پھینک کر ھاے واے کرتے ھوے جنگلوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیں گے- افراتفری کا عالم ھو گا اور لوگ مدہوشوں کی طرح بے سدھ پھر رھے ھوں گے حالانکہ وہ نشے کی وجہ سے نھی بلکہ اللہ کے سخت عذاب کی دہشت کی وجہ سے ان کی عقلیں ماؤف کر دی ھوں گی- آہ اس روز کیا حال ھو گا جب ھر آدمی اپنے سگے کی صورت دیکھ کر بھاگ جاے گا اپنے ماں باپ سے بیگانہ ھو جاے گااور اپنے بیوی بچوں سے چھپتاپھرے گا خواہش کرے گا کہ کاش آج اللہ میرے بدلے میری ماں اور باپ،بیوی اور بچوں بھنوں اور بھائیوں کو دوزخ میں ڈال دے اور مجھے چھوڑ دے- آہ اس روز کیا بنے گا جب مجرموں کو گردنوں میں طوق،ھاتھوں میں ہتھکڑ یاں پاؤں میں زنجیریں ڈال کر اور گندھک کے لباس پہنا کر اللہ کی عدالت میں پیش کیا جاے گا-
سورة إبراهيم 49 تا 51 وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ لِيَجْزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ”
اورتو اس دن گناہگاروں کو زنجیروں میں جکڑے ہوئے دیکھے گا کرتےان کے گندھک کے ہوں گے اوران کے چہرو ں پر آگ لپٹی ہو گی تاکہ الله ہر شخص کو اس کے کیے کی سزا دے بے شک الله بڑی جلدی حساب لینے والا ہے” آہ اس روز ریاء کار حافظوں،عالموں،مجاھدوں،جان بازوں،سخیوں،اور فیاضوں کو کس طرح جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جاے گا؟ ظالم حاجیؤں اور نمازیوں سے ان کی نیکیوں چھین کر مظلوموں کو دے دی جائیں گی- آہ جس روز زانیوں اور بدکاروں کی اور ان کی کرتوتوں کی فائلیں کھول کر ان کے سامنے رکھ دی جائیں گی اور انھیں کہا جاے گا:
سورة الإسراء 14 اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ”اپنا نامہ اعمال پڑھ لے آج اپنا حساب لینے کے لیے تو ہی کافی ہے” آہ اس روز بدکار اور زاینہ عورتوں کا کیا بنے گا جب وہ بیڑ یوں اور زنجیروں میں جکڑی ھوئ دربار الٰہی میں پیش کی جائیں گی اور ایک ایک زانیہ کے پیچھے ستر(70)ستر(70) زانی مرد لعنت کے طوق پہنے کھڑے ھونگے- اسی دوران جہنم سے ایک گردن نکلے گی اور ین مجرموں کو دیکھ کر یوں جھر جھری لے گی جیسے بھوکے خچر جَو پر ٹوٹ پڑنے کی کوشش کرتے ھیں-وہ مجرموں کو میدان محشر سے یوں چُگ لے گی جس طرح دانے چگتا ھے جب طوا ئفو ں نے شاہ اسما عیل دہلوی رحمتہ اللہ کے اس مفہوم والے بیان کو سنا تو ان پر لرزہ طاری ھو گیا-روتے روتے اُن کی ہچکیاں بندھ گئیں-انھیں یقین آ گیا جس طرح عالم ازل سے رحم مادر میں آنا برحق ٹھرا اور رحم مادر سے دنیا میں آنا برحق ثابت ھوا اس طرح دنیا سے قبر میں جانا بھی برحق ھے وہاں سے اللہ کے دربار میں پیش ھونا بھی برحق ھے- یہ حقائق کسی کے نہ ماننے سے جھٹلاے نہیں جا سکتے ان حقیقتوں پر ایمان نہ رکھنے والے بھی اسی عمل سے ماں کے پیٹ میں آے جس طرح ایمان والے آے اور اسی طرح پیدا ھوے جس طرح اہل ایمان پیدا ھوتے ھیں اسی طرح مریں گے جس طرح اہل ایمان مرتے ھیں اور بالآخر قبروں سے اٹھ کر اسی جگہ پیشں ھوں گے جہاں اہل ایمان پیش ھوں گے- خواہ کوئ اس حقیقت پر ایمان رکھے یا نہ رکھے ھر حال ایسا ھونا ضرور ھے- شاہ ولی اللہ نے جب ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑیاں دیکھیں تو انہوں نے اپنا وعظ کا رخ توبہ کی طرف موڑ دیا اور بتایا کہ جو کوئ گناہ کر بیٹھے تو اللہ سے اس کی معافی مانگ لے تو اللہ بڑا رحیم ھے وہ معاف بھی کر دیتا ھے بلکہ اسے تو اپنے گنہگار اور سیاہ کار بندوں کی توبہ سے اتنی خوشی ھوتی ھے جس طرح کوئ مسافر اپنی اونٹنی پر سوار سینکڑوں میل لمبے ریگستان میں سفر شروع کر دے-جب درمیان میں پہنچے تو زرا سستانے کی غرض درخت کے نیچے سو جاے اور جب اسے جاگ آے تو اونٹنی کو وہاں موجود نہ پا کر چکرا جاے۔ادھر اُدھر کر کے تھک ہار کر اپنے آپ کو موت کے منہ میں دیکھ کر مایوس ھو کر لیٹ جاے کہ جھلستے ھوے ریگستان میں سڑ سڑ کر مرنے سے درخت کے نیچے مرنا ھی بھتر ھے اسے اس حال میں نیند آ جاے پھر وہ جاگے اور مع سامان خوردنوش کے اپنی اونٹنی کو موجود پاے تو وہ خوشی کی فروانی کی وجہ سے یہ کہہ بیٹھے واہ میرے اللہ ! میں تیرا رب اور تو میرا بندہ ھے-’ چنانچہ جس طرح اس بندے کو موت کے منہ سے نکل کر خوشی ھوتی ھے اس طرح اللہ کو اس بندے سےبھی کہیں زیادہ خوشی اس مرد یا عورت سے ہوتی ھے جو گناہوں سے سچی توبہ کر لے اس کا فرمان ھے:
سورة الزمر 53 قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ”
(اے میرے پیارے نبی) میری طرف سے لوگوں کو کہہ د یجیے (اللہ فرما رھا ھے) اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک الله سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے ” وہ ھر توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ھے اور اس کے گناہ معاف کر دیتا ھے بلکہ اگر کوئ خطا کار سچی توبہ کر کے آئندہ اس طرح کے گناہوں سے تا حیات بچا رھے اور نیک اعمال پر عمل پیرا ھو جاے تو وہ اسکی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیتا ھے:
سورة الفرقان 70 إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ”
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک کام کیے سو انہیں الله برائیوں کی جگہ بھلائیاں بدل دے گا اور الله بخشنے والا مہربان ہے” اس طرح حدیث پاک میں آتا ھے: ”گناہ سے توبہ کرنے والا یوں پاک اور صاف ھو جاتا ھے گویا اس نے گناہ کیا ہی نھی” الغرض آپ نے توبہ کے اتنے فضائل بیان کیے کہ ان کی سسکیاں بند ھو گئیں- آنکھوں کے آنسو تھم گے اور وہ اپنے دوپٹوں سے اپنے رخسار پونچھنے لگیں-کسی زریعے شہر والوں کو اس وعظ کی خبر ھو گئ-وہ دوڑے دوڑے آے اور مکانوں کی چھتوں دیواروں چوکوں اور گلیوں میں کھڑے ھو کر وعظ سننے لگےتاحدِنگاہ لوگوں کے سر ھی سر نظر آنے لگے-اس کے بعد شاہ صاحب نے عفت مآب زندگی کی برکات اور نکاح کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی اور اس موضوع کو اس قدر خوش اسلوبی سے بیان کیا کہ تما م طوائفیں گناہ کی زندگی پر کف افسوس کرنے لگیں- حضرت شاہ اسماعیل کے اس وعظ نے برائی کے اس طوفان کے آگے بند باندھ دیا اور غلط راہ پر چلنے والیوں کو صراط مستقیم پر گامزن کر دیا-آپ نے انھیں اٹھ کروضوء کرنے اور دو رکت نوافل ادا کرنے کی ھدایت کی جب وہ وضو کر کے قبلہ رخ کھڑی ھوئیں اور نماز کے دوران سجدوں میں گریں تو شاہ شہید رحمہ اللہ نے ایک طرف کھڑے ھو کر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کی: ”اے مقلب القلوب! اے مصرف الاحوال! میں تیرے حکم کی تعمیل میں اتنا کچھ ھی کر سکتا تھا یہ سجدوں میں پڑی ھیں تو نے ان کے دلوں کو پاک کر دے گناہوں کو معاف کردے اور انھیں آبرومند بنا دے تو تیرے آگے کچھ مشکل نھی-ورنہ تجھ پر کسی کا زور نھیں-میری فریاد تو یہ ھے کہ انھیں ہدا یت عطا فرما انھیں نیک بندیؤں میں شامل فرما” – ادھر سید اسماعیل رحمہ اللہ کی دعا ختم ھوئی اور ادھر ان کی نماز-وہ اس حال میں اٹھیں کہ دل پاک ھو چکے تھے اور وہ جائز نکاح پر راضی ھو چکی تھیں چنانچہ ان میں سے جوان عورتوں نے نکاح کرا لیے اور ادھیڑ والیوں نے گھروں میں بیٹھ کر محنت مزدوری سے گزارا شروع کر دیا- کہتے ھیں کہ ان میں سے سب سے زیادہ خوبصورت موتی نامی خاتون کو جب اس کے سابقہ جاننے والوں نے شر یفانہ حالت اور سادہ لباس میں مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے ہاتھ والی چکی پر دال پیستے دیکھا تو پوچھا ”سنا وہ زندگی بہتر تھی جس میں تو ر یشم و حریر کے ملبو سات میں شاندار لگتی اور تجھ پر سیم وزرنچھاور ھوتے تھے یا یہ زندگی بہتر ھے جس میں تیرے ہاتھوں پر چھالے پڑے ھوے ھیں؟ کہنے لگی اللہ کی قسم! مجھے گناہ کی زندگی میں کبھی اتنا لطف نہ آیا جتنا فرسانِ مجاھدین کے لیے چکی پر دال دلتے وقت ہاتھوں میں ابھرنے والے چھالوں میں کانٹے چبھو کر پانی نکالنے سے آتا ھے- اللہ اکبر یہ ھے حلاوت ایمان اور یہ ھے پر لطف زندگی- اس قصے کا اصل تزکرہ الشہید میں ھے اوراس واقعہ کو کتاب ”اسلامی تاریخ کے دلچسپ اور ایمان افریں واقعات” تالیف و تصنیف ابو مسعود الجبار” سے نقل

مسلمانوں کی محبت نے مجھے مسلمان کردیا۔ ایک ہندو خاتون کی داستان



مسلمانوں کی محبت نے مجھے مسلمان کردیا۔ ایک ہندو خاتون کی داستان
میرا نام سونیا جین تھا، چاندنی چوک دہلی میں جین مت کے ایک مذہبی گھرانے میں۲جون ۱۹۷۵ء کو میں پیدا ہوئی ۔ میری ماں مومنہ خاتون (سابقہ نرملا جین) کا قبول اسلام کے بعد دو سال قبل انتقال ہوا۔ ( اللہ تعالی اپنے سایہ رحمت میں ان کو جگہ دے۔آمین)جب کہ میرے والد پون کمار جین میرے بچپن ہی میں چل بسے تھے۔ میری بہن انورادھا جین جو فی الحال گجرات میں اپنے بال بچوں کے ساتھ مقیم ہیں، ان پر بھی اسلام کی سچائی واضح ہوچکی ہے۔ اس کا وہ بار بار اظہار کر چکی ہیں ، لیکن اپنے شوہر کی وجہ سے پس و پیش میں ہیں۔ اللہ تعالی انہیں جلد ہی ہدایت کی توفیق دے۔ آمین ہم سب ان کے ليے دعا کر رہے ہیں۔ میرا ایک بھائی بھی ہے جس کا نام پلے پارول کمار گپتا تھا، اب مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد محمد عمران ہے۔ میں نے چاندنی چوک کے جین اسکول میں بارہویں پاس کی۔ اس کے بعد تعلیم ترک کردی، البتہ گھر پر رہ کر کچھ کچھ پڑھ لیا کرتی تھی۔ میں اپنی ماں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ جین مندر بھی جایا کرتی تھی، جہاں ہم سب پاٹھ میں شرکت کرتے، پوجاکرتے، پری کرما کرتے،(پھیرے لگاتے) ۔
ہمارا ماحول اس وقت پورا جینی تھا۔ کسی دوسرے ماحول کی ذرا بھی جانکاری نہیں تھی، جین مندروں میںجب ہمارے رشتہ دار بالکل ننگے سادھوﺅںکے چرنوںکو چھوتے تومیں ہمیشہ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتی۔ میری نگاہیںشرم کے مارے زمین میں گڑجایا کرتی تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کرتا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ لیکن چونکہ ہمارے رشتے دار ایسا کرتے تھے اور ہم دیکھتے آرہے تھے، اس ليے میں چپ سادھ لیتی۔
اسی طرح زندگی کے دن گزرتے رہے حتی کہ میں ۱۹ سال کی ہوگئی۔ میری ماں ان دنوں ایک کمپیوٹر ڈیزائننگ اینڈ پروسیسنگ کمپنی میں کام کرتی تھیں۔ اس کمپنی کے پروپرائٹر محترم عشرت صاحب تھے، جو اب میرے رفیق حیات ہیں۔ عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے ساتھ مساویانہ تھا۔ وہ سارے اسٹاف کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر لنچ کیا کرتے تھے، جہاں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی شامل ہوتے تھے۔ ان میں شاکا ہاری ( سبزی خور)بھی تھے اور مانساہاری(گوشت خور)بھی۔ ہم لوگ شدھ شاکاہاری ( خالص سبزی خور) تھے، لیکن میری ماں نے سب کے ساتھ کھانے پر کمپرومائز کرلیا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہاں ایک آسامی نکلی تومیری ماں نے مناسب سمجھا کہ میں بھی ان کے ساتھ کام کروں ۔ یہ جنوری ۹۵ ۱۹ءکی بات ہے ، جب میں پہلے روزوہاں کام کرنے آئی تو میری ماں اس بات پر کافی پریشان تھیں کہ میں کس طرح سب کے ساتھ مل کر لنچ کروں گی ؟ جبکہ وہاں دوسرے اسٹاف مانساہاری( گوشت خور)بھی ہیں، اس ليے انہوں نے سب سے پہلے عشرت صاحب سے بات کی کہ میں تو آپ لوگوں کے ساتھ مل کر کھالیتی ہوں ،لیکن میری بیٹی سونیا جین بڑی مذہبی ہے اور شدھ شاکاہاری( خالص سبزی خور ) ہے، وہ ہمارے ساتھ کھانا کھانے کے ليے رضامند نہیں ہے، اس ليے وہ الگ تھلگ کھالیا کرے گی۔ عشرت صاحب نے ان کی بات سن کر مجھے آفس میں طلب کیا اور پوچھا :
آپ کو گوشت یوں ہی نا پسند ہے یا آپ کے نزدیک یہ پاپ ہے ؟
” یہ تو بہت بڑا پاپ ہے “۔ میں نے اپنے علم کے مطابق جواب دیا، جو میں اپنے پرکھوں سے سنتی آئی تھی۔
” اگر یہ پاپ دنیا سے ختم ہوجائے اور سارے ہی لوگ سبزی کھانے لگیں تو کیسا رہے گا ؟ “۔عشرت صاحب نے پوچھا
” یہ تو بہت اچھا رہے گا۔ “ میں نے جواب دیا: انہوںنے کہا: ” اچھا یہ بتاﺅ کہ اس وقت آلو کا کیا بھاﺅ ہے ؟ “ میں نے کہا : ” یہی کوئی چار پانچ روپے کلو۔ “ انہوںنے کہا : ” اگر سب لوگ گوشت خوری ترک کردیں اور ساگ سبزی کھانے لگیں تو آلو سو روپے کلو ہوجائے گا، کیوں کہ۵ ۹ فیصد لوگ مانساہاری( گوشت خور ) ہیں، پھر بتا ئيے کہ سب کے جیون (زندگی) کی گاڑی کیسے چلے گی اور لوگ کس طرح سے اپنا پالن پوسن (گزر بسر) کریں گے ؟ “
ان کی بات سن کر میری عقل کی پرتیں کھل گئیں اور میری سمجھ میں آگیا کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں صحیح کہہ رہے ہیں۔ یہی میرا ٹرننگ پوائنٹ تھا ‘جب میں نے عقیدت سے نہیں عقل سے سوچا۔ میں نے اسی دم سب کے ساتھ مل کر کھانے کے لیے حامی بھر لی اور اتنا ہی نہیں ، بلکہ جب کھانے پر بیٹھی تو عشرت صاحب کے ٹفن میں سے مرغ کی ٹانگ بھی حلق سے اتر گئی۔
عشرت صاحب اس کے بعد وقتاً فوقتاًمجھے اسلام کے بارے میں بتاتے رہے اور میں ان کی باتوں کو بڑے غور سے سنتی اور اپنی عقل کااستعمال کرتی تو عقل بھی انہیں کی باتوں کی تصدیق کرتی ۔دھیرے دھیرے اسلام کے ليے میري دلچسپی میں اضافه ہونے لگا۔ ایک دن عشرت صاحب نے دنیا کے نقشے کو سامنے رکھ کر بتایا کہ مکہ دنیا کا مرکز ہے ، جہاں سے اسلام کی روشنی برابر دنیا کے کونے کونے میںپہنچتی ہے، جس طرح کمرے کے سنٹر میں بلب روشن ہوتواس کی روشنی کمرے کے ہر جانب برابر جاتی ہے، اس کے بر عکس جین دھرم صرف ہندوستان میں محصور ہے اور اس کا پھیلاﺅ ممکن نہیں۔ یہ بات میرے دل کو چھوگئی۔ پھر میرا ضمیردن بہ دن مجھے کچوکے لگانے لگاکہ میں غلطی پر ہوں اور اسلام ہی اصل سچائی ہے ۔ جب بھی عشرت صاحب مجھے کوئی بات بتاتے تووہ اس سلسلہ میں عقلی اور منطقی استدلال ﭘﯾﺶ کرتے اور یہی وہ بات تھی، جس کے آگے مجھے ڈھیر ہونا پڑا۔ دوسری بات یہ تھی کہ خود عشرت صاحب کا رویہ اپنے اسٹاف کے ساتھ بڑا نرم تھا۔ وہ سب کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھتے اور ہر ایک کے ساتھ بڑی شفقت ومحبت کا معاملہ کرتے۔ ان کا اخلاق بڑا کریمانہ تھا۔ انہوںنے جین دھرم میں مہاویر سوامی کی پرتیما(مورتی) کی جو تشریح کی ‘میںاس سے بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خود کا پہناواننگ (عریانیت)تھا اور وہ دوسرے لوگوں کو کپڑے پہننے کے ليے کہہ رہے ہیں۔ یہ قول و عمل کا تضاد میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ ان سب وجوہات کی بناءپر میرا دل اسلام کی طرف مائل ہونے لگا۔
۴۱ مارچ۱۹۹۵ءمیری زندگی کا وہ مبارک دن تھا، جب میں مشرف بہ اسلام ہوئی۔ عشرت صاحب کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر جمعہ کو آفس بند کرکے سورئہ کہف كي تلاوت کرتے تھے۔ میرے اندر تجسس ابھر ا کہ وہ اتنے اہتمام سے کیا پڑھتے ہیں ؟ جب میں نے ان کو سورئہ کہف کی تلاوت کرتے سنا تو میرے دل کی اندرونی کیفیت کچھ عجیب سی ہوگئی۔ ایک طرح کی بیداری پیدا ہوگئی۔ پھر عشرت صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم آگ کا ایندھن بننے سے کب بچوگی ؟ میں نے از خود رفتگی میں کہا کہ بہت جلد انہوںنے کہا کہ کیا خبر ، یہ سانس جو تم لے رہی ہو ، آخری ہو ؟ پھر اچانک میں بڑے جوش میں بولی کہ ابھی اور اسی وقت ! پھر عشرت صاحب نے مجھے کلمہ پڑھایا اور میں مسلمان ہوگئی۔ میں نے اسی دم یہ دعا کی ” اے اللہ! جس طرح تو نے مجھے آگ سے بچایا ہے، اسی طرح میری ماں اور میرے بھائی کو بھی بچالے “۔ اللہ تعالی کے یہاں میری یہ دعا بھی قبول ہوگئی۔ شروع میں تو میری ماں اور بھائی دونوں نے میری مخالفت کی ۔ میرا بھائی تو عشرت صاحب کا جانی دشمن ہوگیا، لیکن جب میں نے ان کو خود اسلام کے بارے میں کچھ معلومات دیں اور بتایا کہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھا یا ہے ، پھر ان کے سامنے نماز وغیرہ پڑھنے لگی تو وہ بہت متاثر ہوئے اور دونوں نے ہی اللہ کے فضل سے اسلام قبول کرلیا۔
میری ماں نے میری شادی عشرت صاحب سے کردی، جن کی بیوی کا کینسر کے مرض میں شادی کے تین چار سال بعد انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے تین بچے تھے۔ ان بچوں سے مجھے جو پیار ملا اور کہیں نہیں ملا۔ میرا ان سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ میں اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی ہوں کم ہے ۔ میری ابھی ایک بچی ہے، جس کا نام ناز ہے اور میں اسے اسلام کی اشاعت کے ليے تیار کر رہی ہوں ، کیونکہ جب میں نے اسلام قبول کرلیاتو اب ایک بہت بڑی ذمہ داری کو قبول کیا ہے اور اپنے اوپر اسلام کی تبلیغ کو فرض کرلیا ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ لوگ حلقہ اسلام میں زیادہ سے زیادہ آئیں۔ ہم اپنے اخلاق سے،اپنے کردار سے قرآن کا مکمل نمونہ بنيں تاکہ لوگوں میں اسلام کی سچائی جاگزیں ہو۔ میں اسلام سے متعلق مختلف کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں ۔ قرآن مجید کو میں نے سمجھ کر پڑھا اور مجھے لگا کہ حقوق العباد پر اسلام کا بہت زور ہے اور یہی حقوق العباد اسلام کا دائرہ وسیع کرنے میں بھی بہت معین ہے۔ ہمیں اپنی دعوت میں خوش اخلاقی کو مقدم رکھنا چاہيے۔ ا ب تک اللہ کے فضل سے میری ماں اوربھائی کے علاوہ تین اور لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے ۔ یہ میمونہ خاتون(سنینا کپور) محمد یوسف (راجن کپور) اور محمد زید( ستیش کمار ) ہیں ۔ میری اپنی کوشش ہے اور تمام لوگوں سے استدعا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص داعی بنے اور دعوت کو جاری رکھے، اپنے بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت کرے تاکہ وہ اسلام کے داعی بن کر ابھریں۔